|
قبائلی علاقوں میں ’شرعی‘ عدالتیں
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے کئی قبائلی علاقوں میں شرعی عدالتیں قائم کر دی ہیں اور صرف باجوڑ ایجنسی میں ان عدالتوں میں اس وقت سات سو کے قریب مقدمات زیر سماعت ہیں۔
دوسری طرف مہمند ایجنسی میں طالبان نے منگل کے روز چار نئی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ تحریک طالبان کے ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے مقامی دینی علماء اور مفتیوں پر مشتمل یہ شرعی عدالتیں مہند، خیبر، اورکزئی، باجوڑ ، جنوبی اور شمالی وزیرستان میں قائم کردی ہیں۔ ان کےمطابق شرعی عدالتوں کا منظم نظام باجوڑ ایجنسی میں موجود ہے جہاں پر بیس کے قریب علماء روزانہ درجنوں فیصلے سناتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کا مؤقف جاننے کے لیے پولٹیکل ایجنٹوں سے رابطہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ کئی مقامی لوگوں نے بات چیت کے دوران بی بی سی کو بتایا کہ کچھ عرصے سے اس قسم کی عدالتیں قائم ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں ان کے پاس اپنے مقدمات لے کر جاتے ہیں۔ ان کے مطابق باجوڑ ایجنسی کی تحصیل ماموند کے سیوئی کے علاقے میں طالبان کا ایک بڑا مرکز واقع ہےجہاں پر روزانہ سینکڑوں لوگ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ان کے مطابق ان کے پاس زیادہ تر جائیداد، زمین کی ملکیت، قرض جیسے معاملات کے حل کے لیے مقدمات لائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق مرکز میں موجود علماء روزانہ ان مقدمات کے فیصلے ’ قرآن‘ کی روشنی میں نمٹاتے ہیں اور ابھی تک کسی بھی فریق نے اس پر اعتراض نہیں کیا ہے بلکہ بقول ان کے وہ بخوشی ان فیصلوں کو تسلیم کرلیتے ہیں۔ مولوی عمر کے مطابق سرکاری فائلوں میں برسوں سے موجود مقدمات کی عدم سماعت کی وجہ سے لوگ فوری انصاف کے حصول کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔
فیصلوں کے طریقہ کار کے بارے میں مولوی عمر کا کہنا تھا کہ فیصلے سنانے سے قبل پہلے فریقین طالبان کے سامنے اپنے مقدمے پیش کرتے ہیں، اس کے بعد علماء انہیں گواہوں سمیت بیان دینے کے لیے بلاتے ہیں جبکہ بعد میں فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق بعض فیصلوں میں ایک دن جبکہ بعض میں کئی دن کا وقت لگ جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک کسی کو بھی اسلامی سزائیں نہیں دی گئی ہیں بلکہ صرف تصفیے کرائے جاتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ طالبان نے اپنی عدالتیں قائم کرکے حکومتی عملداری کو چیلنج کردیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں پہلے بھی لوگوں کو جرگہ اور شریعت کے ذریعے مسئلے کے حل کی مرضی دی جاتی تھی اور ہم نے تو صرف جرگوں کو ’شرعی‘ عدالتوں میں بدل دیا ہے۔ مہمند ایجنسی کے طالبان ترجمان ڈاکٹر اسد نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے منگل کو حاجی صاحب ترنگزئی، خلو ڈوک ، پنڈیالئی اور لوئر کرم میں چار عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جہاں پر’ شریعت‘ کے مطابق فیصلے سنائے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہر عدالت دو قاضیوں پر مشتمل ہوگی جبکہ ایجنسی کی سطح پر ان تمام عدالتوں کا ایک سپریم قاضی ہوگا۔ باجوڑ کے ایک رہائشی گل احمد جان اور جارخان کے درمیان زمین کی ملکیت پر تنازعہ طالبان کی عدالتوں میں ہی طے ہوا ہے۔گل جان نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے جارخان سے کئی سال قبل صدر مقام خار میں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا جس سے بقول ان کےا نہیں دینے سے انکار کیا گیا۔ ان کے مطابق انہوں نے پولٹیکل ایجنٹ کے پاس مقدمہ درج کیا جو دو سال تک چلتار رہا اس دوران جرگے سمیت تحصیلدار، اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ اور پولٹیکل ایجنٹ نے اس پر فیصلے سنائے مگر کسی قسم کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہورہا تھا۔ ان کے مطابق اس وقت یہ مقدمہ اسلام آباد میں زیر سماعت تھا مگر طالبان کی عدالتوں کے قیام کے بعد انہوں نے اپنا مقدمہ ان کے سامنے پیش کیا۔ ان کے بقول’ طالبان نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ وہ سرکاری عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمے سے دستبردار ہوجائیں اور جلد سے جلد دعویٰ اور جواب دعویٰ داخل کروا کر بیانات کے لیے گواہان کے ہمراہ علماء کے سامنے پیش ہوجائیں۔
گل احمد جان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے مرکز میں انہوں نے تقریباً چار سو عام لوگوں کو دیکھا جو وہاں پر اپنے مقدمات کے سلسلے میں آئے تھے جبکہ وہاں پر موجود علماء باری باری ان مقدمات کی سماعت کرتے تھے۔ان کے مطابق مرکز کے آس پاس درجنوں مسلح طالبان بھی موجود تھے۔ بی بی سی کو باجوڑ میں موجود طالبان کی ایک عدالت کے پندہ جولائی یعنی منگل کے روز سنائے جانے والےایک فیصلے کی نقل موصول ہوئی ہے ۔ اس مقدمے کی فریقین زیر محمد اور حاجی عبدالقادر ہیں جن کے درمیان زمین کا تنازعہ ہے۔ طالبان کے پیڈ پر یہ فیصلہ پشتو زبان میں لکھا گیا ہے جس پر دو تلواروں کے بیچ میں ’ قاری ابو عدنان حقانی امیرِ اصلاحی کمٹی تحصیل سالازئی مجاہدین لکھا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کی ایک قوت کے طور پر سامنے آنے کے بعد ان علاقوں میں اس قسم کی عدالتوں کے قیام کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک منظم شکل میں سامنے آ رہی ہیں۔ مبصرین کے خیال میں قبائلی علاقوں میں تین سو سے زائد عمائدین کی ہلاکت کے بعد جرگہ سسٹم کے کمزور ہونے اور حکومتی عملداری کے تقریباً ختم ہونے کے بعد زیادہ تر لوگوں نے طالبان کی لگائی ہوئی عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کردیا ہے۔ |
اسی بارے میں ’ایف سی آر کی جگہ شرعی نظام‘
08 April, 2008 | پاکستان سرحد:’شرعی نظام عدل‘ میں ترامیم
23 January, 2008 | پاکستان صرف شرعی قانون قابل قبول: طالبان
30 March, 2008 | پاکستان مالاکنڈ: شریعت کا نفاذ ایک ماہ میں
13 May, 2008 | پاکستان ’غیرشرعی اقدامات سےتوبہ کریں‘
04 October, 2007 | پاکستان ’کلوننگ غیرشرعی ہے‘
13 December, 2004 | پاکستان | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
|